تصور میں کیا نہیں آتا؟
اک سفر ہزار سفر
پُر خطر پُر خمار سفر
آنکھیں بچھی تو بچھی ہی رہیں
لب ہلیں تو محبت کی خاطر
اس زندگانی میں کیا ملے گی وہ نوید
وہ خوشی جسکا تصور ہی کروں تو آپے میں نہ رہوں
وہ جگہ سے نہیں جگہ والے سے ملنے کی تڑپ
کیسے کیسے آتے ہیں دل میں خیال
مجھ پر جب ہوگی وہ عطا
دل خوشی سے پھٹ ہی جائے نا
تڑپ تڑپ تڑپ
بس ابھی نہیں ہوئی شاید وہ عطا
اے میرے پیارے میرے رب میرے دل کے محبوب اوّل
اپنے سے ملاقات سے پہلے اپنے گھر مجھ کو بھی بلا
روتی ہوئی تڑپتی ہوئی میری دھڑکنیں
سننے کو بے تاب ہیں یہ مدعا
بے اسباب بے سرو سامان و سائیبان
مانتی ہوں صبر میں بھی ہوں کوتاہ نگاہ
تیرے ہی کرم سے ہوگا میری زندگانی میں یہ معجزہ
تیری ہوں بس تیری ہوں تو ہی میرا رب کون و مکاں