Friday 6 March 2020

امید

تصور میں کیا نہیں آتا؟
اک سفر ہزار سفر
پُر خطر پُر خمار سفر
آنکھیں بچھی تو بچھی ہی رہیں
لب ہلیں تو محبت کی خاطر
اس زندگانی میں کیا ملے گی وہ نوید
وہ خوشی جسکا تصور ہی کروں تو آپے میں نہ رہوں
وہ جگہ سے نہیں جگہ والے سے ملنے کی تڑپ
کیسے کیسے آتے ہیں دل میں خیال
مجھ پر جب ہوگی وہ عطا
دل خوشی سے پھٹ ہی جائے نا
تڑپ تڑپ تڑپ
بس ابھی نہیں ہوئی شاید وہ عطا
اے میرے پیارے میرے رب میرے دل کے محبوب اوّل
اپنے سے ملاقات سے پہلے اپنے گھر مجھ کو بھی بلا
روتی ہوئی تڑپتی ہوئی میری دھڑکنیں
سننے کو بے تاب ہیں یہ مدعا
بے اسباب بے سرو سامان و سائیبان
مانتی ہوں صبر میں بھی ہوں کوتاہ نگاہ
تیرے ہی کرم سے ہوگا میری زندگانی میں یہ معجزہ
تیری ہوں بس تیری ہوں تو ہی میرا رب کون و مکاں

التجا

اسکی محبت میں تحلیل ہو جاؤں
عطا ہو ایسا وصف اسکی خلیل ہو جاؤں

وہ میرا ہے کہ وہ خالق ہے میرا
التجا، فریاد، بنتی، منت ،صرف اسکی ہو جاؤں

وہ ہیں پیارےسراپا دعا جن کے وجود
دعا پکارتی لب پر رتی بھر ہی ان سی ہوجاؤں

Sunday 7 April 2019

آنکھیں جگنو

آنکھیں جگنو سو جائیں 
خواب جو دیکھیں رو جائیں
دھڑکنیں تیری چاپ سنیں 
مست ملنگ، کملی ہوجائیں 
تیری باتیں تیرے قصے تیرا مان
امید کی کتنی فصلیں بو جائیں

Saturday 29 September 2018

خزاں رت اور بارش


کہیں دور بارش برسی
سوندھی مٹی کی مہک آور ہوا کا سندیسہ 
ٹھنڈک ہے اس میں گھلی ہوئ
بدن کو اک سرور بھری کپکپاہٹ دیتی ہوئ
ہاں یہ بارشوں کے موسم جاڑے کی آمد
پتوں کی ہوا سے بجتی جلترنگ 
مجھے بے اختیار کرتی ہیں
کسی لمبی مسافت پر نکل جاؤں 
یہ مجھ میں خمار بھرتی ہیں
میں کہ شاید اب ازل سے ہی ہوں اک جگہ منجمد
کوئ سحر ہے کسی کا حصار ہے شاید
جو اس جمود کو جمائے ہوئے ہے
میں اک سحر زدہ شاہزادی 
جس کو کوئی منتر جانے کب آزاد کرے 
اور تتلی کی طرح اڑتی میں اپنے رنگ 
بکھر بکھر کر سمیٹوں گی 
ہاں یہ پھر وہی جھونکا آیا 
کھڑکی کے پردوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا
مجھے پھر بے اختیار کرتا۔۔
آہ یہ آتے جاڑے کی رُت 
یہ بارش کی دستکیں 
یہ مٹی کی اودھم مچاتی مہک۔۔۔۔
سمیرہ

فقط محبت

مجھے طاقچوں میں رکھ لے 
کہ جب سرد راتوں میں 
گھپ اندھیر ساعتوں میں 
دیا ہو کوئ جلانا تو یاد کو میری 
تم طاقچوں سے اٹھانا اور اسکی سلگتی لو سے
دیا کو روشن کرنا، میں تیرے پاس تھی ازل سے
میں تیرے پاس ہوں ابد تک 
میں فقط تھی محبت
میں فقط ہوں محبت 
سمیرہ

ابن آدم، بنت حوا اورعشق چائے

کبھی چائے دیکھی صاحب؟ 
سانولی سلونی، گندمی سی کڑکتی 
اسکی مہک سانسوں میں اودھم مچاتی 
وہ بے رنگ تھی پانی تھی 
پھر اس میں کالی ٹھیکری جیسی پتی گھلی 
اسکو جزبوں کی احساسات کی تپش ملی 
وہ ابلی ابلتی رہی سمے کی قید میں
سمے کی قید سے باہر تو نہیں
ہاں وہ اٹھی بھاپ دیتی ہوئ
اس میں محبت کی چاشنی ملی
تو اسکا بدن گاڑھا ہونے لگا
پھر اس میں دودھیا عشق کا رنگ چڑھا
تو یہ جو کالی سی بھدی سی تھی 
وہ گندمی ہوئ جس میں کچھ سلونا سا رنگ بھی تھا بے پروائ کا 
وہ پھر خوب ہی رنگ پر ہوئ
کہ عشق کی داستان مدغم ہونے سے امر ہوتی ہے بکھرنے سے نہیں 
کالی بھدی نے عشقیا دودھیا رنگ قبول کیا تو اور نکھر گئ، کھل اٹھی
پھر وہ مہکنے لگی 
اسکی مہک کو کیا پھر مگ میں مقید تو چار سو اسکی ہوئ پکار
اک مدھم سا محبوبانہ مرغولا 
دینے لگا اس عشق کی مشک ۔۔
اور سانسوں میں بسنے لگی 
سب کو اپنی اور بلانے لگی 
بتانے لگی ۔۔
حاصل عشق مانگے ہے سہنے قبول کرنے رنگ میں رنگنے کی بھٹی 
اور پھر سانسوں مین بستا ہے 
اور امر ہوتا ہے۔۔۔ 
سمیرہ

Tuesday 11 September 2018

"رخت سفر"

"رخت سفر"
ہاں رکھ رہی ہوں سبھی خواب
سبھی خواہشات 
اندھیری کوٹھڑی کے طاقچوں میں
کوئ ترغیب نہ کوئ حسرت
نہ کسی پر مان نہ محبت
کسی تھیلی میں باقی رہے
نہ کوئ گلہ ہو نہ کوئ شکوہ
جوہو تو بس اسی پر میرا مان ہو
آسمانوں کی وسعتوں میں جو تارے
دکھائے گئے ترغیبات کو مہمیز دینے کو
تو یوں ہی سہی ،کہ اب 
وہ بدلنے کو
اور 
بدلےمیں چنری کے تارے
تو ایسا ہی ہے تو۔۔
حکم پر تسلیم خم ہے
پر اک ذرا سا ملال سا ہے 
اک سوال سا ہے 
منتظر رہوں گی
 جب تک سانس کا تال سا ہے 
وہ خواب نہ دئے ہوتے
،نہ دکھائے ہوتے
ناتواں انسان کو ۔۔۔۔۔۔
سمیرہ

امید

تصور میں کیا نہیں آتا؟ اک سفر ہزار سفر پُر خطر پُر خمار سفر آنکھیں بچھی تو بچھی ہی رہیں لب ہلیں تو محبت کی خاطر اس زندگانی میں کی...